Saturday, August 20, 2011

زمانہ بدل چکا ہے

<font face="Jameel Noori Nastaleeq" size="4">
نیازسواتی

زمانہ بدل چکا ہے !

  زمانہ بدل چکا ہے۔ “ ”آپ کی بات درست ہے مگر ۔۔۔ وقت آگے جاچکاہے۔“ ”آپ بھی کس زمانے کی بات کرتے ہیں ۔ “ ”ٹھیک ہے کہ یہ سب حرام ہے مگر اب تو زمانے کا چلن یہی ہے۔“ یہ جملے دعوت دین کا کام کرنے والوں کے لیے نئے نہیں ہیں۔ برصغیر میں مغلیہ سلطنت کے زوال اور خاص طورپر 1857ءکی جنگ آزادی کی ناکامی نے ہماری مجموعی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ آج ابن الوقتی کی جس روش کا ہم مشاہدہ کررہے ہیں اس کے اثرات ہمارے زوال کی داستان میں موجود ہیں۔ابن الوقتی کی یہ ذہنیت علی گڑھ تحریک سے آج تک مسلمانوں میں استعمار اور مغربی تہذیب سے سمجھوتے کے لیے کوشاں ہے۔
        سرسیدتحریک کی پیدا کردہ اس بیمار انہ ذہنیت کی بہتر ین عکاسی ڈپٹی نذیر احمد نے اپنے ناول ”ابن الوقت“ میں کی ہے۔اس ناول کے ہر قاری نے ابن الوقت کے کردار میں سرسید کی جھلک دیکھ لی۔ سرسید کے کردار کی یہ منظر کشی اس قدر بھرپور تھی کہ خود سرسید کے فرزند نے ڈپٹی نذیر سے اس بات کا گلہ کیا کہ انہوں نے سرسید کے کردار کے اس پہلو کواس طرح کیوں نمایاںکیا کہ ان کی ابن الوقتی ضرب المثل بن گئی ، اگرچہ ڈپٹی صاحب نے وضاحتوں پر وضاحتیںپیش کیں مگرایک واضح حقیقت کے سامنے سب رائیگاں گئیں ۔ آیئے اس ذہنیت کا ناقدانہ جائزہ لیں ۔
  اس سلسلے سب سے پہلی بات یہ کہ کیا زمانہ واقعی ایک ایسی کسوٹی ہے کہ جس کی مدد سے ہر چیز کی خوبی و خامی ناپی جاسکتی ہے یا پیمانہ کچھ اور ہے ؟ اگر زمانہ خود پیمانہ ہے تو فی زمانہ ہونے والی ہر برائی کو اپنالینا چاہیے اور اخلاقیات کے تمام تصورات کو ترک کردینا چاہیے ۔ اس زمانے کو پیمانہ مان لیا جائے تو قتل ، چوری ، جھوٹ ،ظلم اور دہشت گردی غرض کس جرم کی سزا دی جاسکے گی ۔ اگر زمانہ کوئی پیمانہ نہیں تو پھر یہ بات غلط ہے کہ زمانہ بدل گیاہے۔
         دوسری بات یہ ہے کہ کیا ماضی کی ہر چیز زمانے کے ساتھ بدل جانی چاہیے ؟ اگر ایسا ہی ہے تو وقت کے ساتھ خاندان ،محبت ، صداقت ،تعاون اور والدین کا احترام ،مسکراہٹ اور خوب صورتی سمیت تمام انسانی خصوصیات کا خاتمہ ہوجانا چاہیے تھا کیوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ سب انسانی خصوصیات بھی تو پرانی ہوچکی ہیں۔ مگر ابھی پچھلے دنوں ۱۵ مئی کو دنیا بھر میں خاندان کے احیاءکا دن منایا گیا، جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ معاملہ زمانے کے آگے بڑھ جانے کا نہیں بلکہ اصل اہمیت خاندان جیسے معاشرتی ادارے کی افادیت کی ہے جو ہر گزرتے روزشب کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ماضی کی ہر چیز قابل تبدل ہے تو خود ابن الوقتی کی یہ روش بھی بدل جانی چاہیے مگر سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے گزشتہ ایک صدی سے ابن الوقتوں کی ایک ہی گردان جاری ہے کہ ز مانے کی روش ان ا بدی صداقتوں کے خلاف ہے۔ سود اگرچہ حرام ہے مگر زمانے میں چلن تو سود کا ہے لہٰذا سود ،اگر مستقل نہیں تو وقتی طور پر تو درست اور حلال ہونا چاہیے تاکہ مسلمان زمانے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ سکیں۔حقیقت کی پہلی کرن نمودار ہوتے ہی یہ بودی دلیل خود ہی تحلیل ہونے لگتی ہے ۔ اب یہ بات کہنے کا وقت آگیا ہے کہ ابن الوقتی کی اس روش کو بھی خداحافظ کہہ دینا چاہیے ۔
        تیسری بات یہ ہے کہ کیا زمانے کے ساتھ ساتھ انسان کی فطرت بھی بدل گئی ہے ؟ انسانی تاریخ نے اس سوال کا جواب نفی میں دیا ہے ۔ دنیا میں روزاوّل سے جنگوں کا سلسلہ جاری ہے اور دور جدید میں بھی اس رجحان میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ دنیا کی مہذب ترین ترقی کی بلندیوں پر فائزاور جدید تعلیم یافتہ اقوام کے مسکن یورپ کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ صرف جنگ عظیم اول اور دوم میں ہلاک ہونے والے انسانوں کی تعداد چھ کروڑ سے متجاوز ہے.... صرف چھ  کروڑ ! معلوم ہوتا ہے کہ جنگ کے حوالے سے یو ر پ کے انسان کی ذہنیت میں صلیبی جنگوں سے آج تک کوئی فرق نہیں پڑا۔ ہاں فرق پڑا ہے تو صرف یہ کہ اب ٹیکنالوجی کی ترقی کے نتیجے میں جنگوں میں ہلاکتوں کی تعدا د لاکھوں تک پہنچ جاناکوئی مسئلہ ہی نہیں رہا ۔صرف ہیروشیما اور ناگاساکی میں لاکھوں انسان چشم زدن میں فنا کے گھاٹ اتاردیے گئے اور جو باقی بچے ان کی نسلیں آج تک اپاہج پیدا ہورہی ہیں۔
ع      آج بھی زخموں سے گلنار ہے جسم تہذیب
                                آج بھی شہ رگ  اخلاق کا  قاتل   ہے  بشر

صاف ظاہر ہے زمانہ آگے بڑھتا ہے مگر انسانی فطرت کے بنیادی جذبات یعنی محبت ،نفرت ،رحم اور انسانی خواہشات وغیرہ میں کوئی تبدیلی نہیںہوتی ، اس لیے انسانی رہنمائی کے لیے انبیاءعلیہم السلام کے ذریعے دی جانے والے ابدی تصورات کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ ان تصورا ت کے لیے زمانے کی تبدیلی کوئی اہمیت نہیں رکھتی اسی لیے آپ کے دور کو خیر القرون یعنی ہر زمانے سے بہتر زمانہ قراردیا گیا ہے کہ بعد کے زمانے میں ہونے والی ہر تبدیلی کو اس خیرالقرون یعنی بہترین زمانے سے پرکھا جائے گا نہ کہ بعد میں آنے والے کسی زمانے سے خیرالقرون کو پرکھا جائے ۔
        دور جدید میں رواج پانے والے عیسوی تقویم (کیلنڈر) کے مطابق دنیا بھرکی تاریخ کو دو زمانوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ ایک عیسیٰ علیہ سلام کی پیدائش سے قبل کا  زمانہ  جسے  قبل  مسیح (Before Christ) یا B.C کہا جاتا ہے اور دوسرا (After The     Death)  یا  A.D کہلاتا ہے یعنی عیسیٰ علیہ اسلام کے بعد کا زمانہ۔ جب کہ عیسیٰ علیہ سلام کی زندگی کا زمانہ                          (A Temporal) یعنی زمان و مکان سے ماوراءدور سمجھا جاتا ہے ۔ اسی لئے حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی زندگی کے واقعات مہینوں اور سال کے تعین کے ساتھ نہیں ملتے کیونکہ عیسیٰ علیہ اسلام کی زندگی کا دور تاریخ سے ماوراءاور ایک آئیڈیل دور کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اس طرح عیسوی تقویم کے مطابق بھی ایک نبی کا دور زمان و مکان سے ماوراءہوتا ہے ۔ یہی تصور اسلام میں خیرالقرون کے طور پر موجود ہے ، اسی لیے آپ کی تعلیمات زمان و مکان سے ماوراءاور ہر زمانے کے لیے ہیں۔ آپ خاتم النبیین ہیں اور اسلام کے احکامات قیامت تک کے لئے ہیں ۔اس لیے اسلامی احکامات کو یہ کہہ کر ٹھکرانا کہ زمانہ بدل گیا ہے ،عقلی طور پر بھی کوئی مناسب روش معلوم نہیں ہوتی۔
        زمانے کے آگے بڑھ جانے کا ایک عملی مظہر یہ ہونا چاہیے تھا کہ دنیا سے کاسمیٹکس کی مصنوعات اور بال رنگنے والے کیمیکل کی پیداوار کا خاتمہ ہو جاتا کیوں کہ کاسمیٹکس کی مصنوعات اور بال سیاہ کرنے والے کیمیکل کا استعمال آگے بڑھتے ہوئے زمانے کے ساتھ ہم آہنگ رکھنے کے بجائے انسان کو عمر رفتہ کی طرف پلٹانے کی ایک کوشش ہے۔ کیا یہ روش ترقی پسندانہ ہے اور کیا اس روش میں زمانے کے بدل جانے سے کوئی تبدیلی آئی ہے۔
        اس تناظر میں اہم ترین بات یہ ہے کہ "زمانہ بدلنے"سے کیا مراد ہے؟؟ اگر زمانہ بدل جانے سے مراد سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی ہے تو اس ترقی کے اثرات نے دنیا بھر کے ماہرین کو نئے بحرانوںسے دو چار کر دیا ہے ۔ ان نتائج و اثرات نے دنیا کو تباہی کے کنارے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ماحولیات کی تباہی کی موجودہ صوررتحال کا انسانی تاریخ نے کبھی مشاہدہ نہیں کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جس طرح مغربی ممالک میں سائنسی ترقی ہوچکی ہے اگر اسی طرح تمام مشرقی ممالک میں بھی صنعتی ترقی ہوگئی تو صرف ان صنعتوں کا کچرا پھینکنے کے لئے زمین کے برابر چھ مزید سیارے درکار ہوں گے۔ ان حقائق کے اعداد و شمار جاننے کے لئے ۲۰۰۹ء کے دوران کوپن ہیگن میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس کی ہوش رباءدستاویزات کا مطالعہ کافی ہوگا۔ اگر زمانہ بدل جانے سے مراد انسان کا بدل جانا ہے تو جرائم اور خود کشیوں کے دستےاب اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ انسان بی شک بدل گیا ہے......مگریہ تبدیلی منفی ہے۔ موجودہ دور میں تہذیب و تعلیم کا گہوارہ سمجھے جانے والے امریکہ ،یورپ، روس اور چین جیسے ممالک نے جرائم اور خودکشی میں دنیا بھر کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ یہ ترقی معکوس بتا رہی ہے کہ انسانی نفس تو بالکل بھی نہیں بدلا۔ اگر واقعی انسان بدل چکا ہوتا تو کم از کم ترقی یافتہ ممالک میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کا خاتمہ ہو جاتا اور راوی ہر طرف چین ہی چین لکھتا مگر وائے تمنائے خام۔
                              
آخری بات یہ ہے کہ زمانہ بے شک آگے بڑھتا رہتا ہے مگر کائنات کے بارے میں انسانی علم بہر حال ادھورا ہی رہتا ہے۔ اسی لئے علوم اور خاص طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی میں نت نئی چیزیں دریافت ہوتی رہتی ہیں ۔ ترقی کے دوران بعض اوقات انسان پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ ترقی کے اس عمل میں کوئی اہم غلطی ہو چکی ہے جس کہ ازالہ کے لئے ماضی کی طرف پلٹنا ضروری ہے، مثلاََ وقت کے ساتھ ساتھ سائنسدانوں کو معلوم ہوا کہ مسلسل اور تیز رفتار ترقی کے دوران ماحولیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے اور دنیا کا وجود خطرے میں ہے۔ اس کے تلافی کے لئے دنیا بھر میں سبزے کو فروغ دیا گیا، سخت ماحولیاتی قوانین نافذکیے گئے اور فطری طرز زندگی پر زور دیا جانے لگا۔ اس امر کی بہترین مثال جرمنی کے حوالے سے مشہور ہونے والا مستقبل کا شہر"The Future City"  ہے۔ Vauban نامی مستقبل کے اس شہر میں موٹرگاڑیوں ، کارخانوں غرض ضرر رساںدھواں خارج کرنے والی تمام اشیاءکا داخلہ ممنوع ہے۔ حرارت اور نقصان دہ گیسوں کے کم سے کم اخراج اور فطری زندگی کی وجہ سے Vaubanشہر کو مستقبل کا شہر کہا گیا ہے۔ غور سے دیکھیں مستقبل کا یہ شہر ماضی کے یورپی شہروں سے کس قدر متماثل ہے ۔ اسی لیے شہروں کے بارے میں آپ نے ارشاد فرمایا"شہروں کو بڑا مت ہونے دو، اگر شہر بڑے ہونے لگیں تو نئے شہر آباد کرو۔" آج جرمنی میں مستقبل کے اس شہر  Vauban کا وجود میرے آقا صلوٰة سلام کے اس قول مبارک کو ہر زمانے کے لئے یکساں طور پر نافذالعمل ثابت کر رہا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ صنعتی ترقی کے منزل پا لینے کے بعد معلوم ہو کہ انسانی فلاح کی منزل تو کہیں پیچھے رہ گئی ہے۔ سلیم کوثر سچ کہتے ہیں :

        ع              وہ لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں ،دیکھنا انہیں غور سے
                        جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے

No comments:

Post a Comment