Saturday, August 20, 2011

ترقی کیاہے؟

<font face="Jameel Noori Nastaleeq" size="4">
نیاز سواتی

ترقی کیاہے؟

تاریخی پس منظر :
        ترقی ایک ایسی وسیع اصطلاح ہے جو اپنے اند ر کئی پہلو رکھتی ہے ، روحانی ترقی ، اخلاقی ترقی ، معاشرتی ترقی ،علمی ترقی اور مادی ترقی اس اصطلاح کے اہم پہلو ہیں ۔ ترقی ویسے تو ماضی، حال اور مستقبل ہر زمانے اور ہر تہذیب اور معاشرے کاموضوع رہاہے مگرہر تہذیب نے اپنی اپنی مابعدالطبیعیات کے مطابق ترقی کے کسی میدان کو اپنا یا ۔اسلامی تاریخ میں مادی ترقی کو زیادہ جگہ نہ مل سکی ۔ یہی حال دیگر انبیاءعلیہ السلام کی تہذیبوںکی بھی رہا البتہ یورپ میں عیسائیت کے زوال یورپی نشاة ثانیہ کے بعد مادی ترقی کو مقصد زندگی کی حیثیت حاصل ہوئی۔ اسی مادی ترقی کی خاطر یورپی اقوام دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ مادی ترقی سے مالامال ہونے کی خاطر نکل کھڑے ہوئیں۔دیگر اقوام کی لوٹ مار پر مشتمل اس ترقی کی دوڑ نے یورپی اقوام کو باہمی حسد میں مبتلا کیا جس کا نتیجہ دو عالم گیر جنگوں کی صورت میں نکلا ۔ یہ تھا ترقی کا پہلازینہ جس پر قدم رکھتے ہی کروڑوں افراد موت کے منہ میں چلے گئے اور ایک ایسے انسانی المیے نے جنم لیاجو گزشتہ تمام انسانی تہذیبوں میں ناپید رہا۔ اسی لئے مورخین ان عالمی جنگوں سے پہلے اور بعد کے یورپ کی تاریخ کو دو الگ الگ ادوار میں تقسیم کرتے ہیں ۔
         برصغیر کے تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں انگریزوں کے مکمل تسلط(۷۵۸۱ئ) تک مادی ترقی مسلم اور ہندو دونوں تہذیبوں میں بار نہ پاسکی۔ البتہ انگریزوں کے تسلط کا دائرہ مکمل ہونے کے بعد ہندوﺅں میں راج رام موہن رائے اور مسلمانوں میں سرسید ما دی ترقی کے علم بردار قرار پائے (ڈاکٹر انور سدید ، اردو ادب کی تحریکیں صفحہ نمبر ۰۶۲)۔ برصغیر میں انگریزوں کے نوآبادیاتی تسلط نے ہمہ جہت تبدیلیاںاور مسائل پیدا کئے مگر اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ان انگریزی قابضین سے ہمارے تعلق کی صورت کیاہو۔ برصغیر کے علما ءنے اس پرفتن دور میںاسلامی علمیت کو بچانے میں کامیاب رہے اوراور براہ راست تصادم سے بھی گریزاں رہے ، اس کے برخلاف سرسید اور ان کے رفقاءنے برطانوی آقاﺅں کے تسلط کی تکمیل اور ۷۵۸۱ ءکی جنگ آزادی کی ناکامی سے یہ سبق لیا کہ اب انگریز سرکار برصغیر سے جانے والی نہیں لہذااس سے زیادہ سے زیادہ تعاون کرکے اسے اپنے حق میں رام کرلیا جائے تاکہ مسلمانوں کے مادی مفادات محفوظ رہیں اور ترقی کی دوڑ میں مسلمانان ہند کہیں پیچھے نہ رہ جائیں ۔ اس ترقی کو پانے کے لئے سب سے موئثرراستہ یہ تجویز کیا گیا کہ مسلمانان ہند مغربی علوم اور انگریزی تعلیم زیادہ زیادہ حاصل کریں تاکہ ترقی کی دوڑمیں ہم دیگر اقوام کو پیچھے چھوڑدیں ۔سرسید نے اپنے ان خیالات کو کبھی راز نہیں رکھا ۔ سرسید نے کہا :
                ”جو شخص قومی ہمدردی سے اور دور اندیشی سے غور کرے گا وہ جانے گا کہ ہندوستان کی ترقی ، کیا علمی اور کیا اخلاقی ، صرف مغربی علوم میں اعلی درجہ کی ترقی حاصل کرنے پر منحصر ہے۔ اگر ہم اپنی اصلی ترقی چاہتے ہیں ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی مادری زبان تک بھول جائےں ، تمام مشرقی علوم کو نسیامنسیا کردیں ، ہماری زبان یورپ کی اعلی زبانوں میں سے انگلش یا فرنچ ہوجائے، یورپ ہی کے ترقی یافتہ علوم دن رات ہمارے دست و پا ہوں ، ہمارے دماغ یورپین خیالات سے (بجز مذہب کے ) لبریز ہوں ، ہم اپنی قدر ، اپنی عزت کی قدر خود آپ کرنی سیکھیں ، ہم گورنمنٹ انگریزی کے ہمیشہ خیر خواہ رہیں اور اس اپنامحسن و مربی سمجھیں “۔ (مقالات سرسید جلد ۵، صفحہ ۶۶)
        سرسید جن دو بڑی غلط فہمیوں کا شکار رہے ان میں سے ایک یہ تھی کہ تاج برطانیہ کا اقتدار ہمیشہ ہندوستان میں قائم رہے گا ۔اس پہلے مغالطے کاابطال تو تقسیم ہند سے ہی ظاہر ہوگیا ۔ مگر دوسری غلط فہمی کہ ”مادی ترقی ہی ہمارا نصب العین ہونا چاہیے۔“ آج بھی ازالہ چاہتی ہے۔ آئیے اس غلط فہمی کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ترقی کے اس تصور کی بنیادیں کہاں ہیں ۔یہ تصو ربہر حال دین حنیف کا نصب العین نہیں ، اگر مادی ترقی دین کا مقصود ہوتی اسلامی تاریخ میں اس کی بین مثالیں ملتیں او ر علماءحق سب سے زیادہ اس کے شناسااور معتقدہوتے مگر عملی صورت حال یہ ہے کہ اسی مادی ترقی میں رکاوٹ کی بناءپر جدیدیت زدہ طبقہ علماءکو رجعت پسند قرار دیتا ہے اور علماءکے ہاں بھی مادی ترقی کے بجائے قناعت ، فکر آخرت ، دنیا کو حقیر جاننا اور الفقر کو فخر سمجھنے کی روش اور مضامین تو ملتے ہیں مگر مادی ترقی کے مضامین نہیں ملتے ،خیر القرون کی روشن مثالیں توبلاشبہ ابدی مینارہ نورہیں مگر برصغیر کے اکابرعلماءکی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے توبھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ عارف بااللہ حضرت اشرف علی تھانوی رحمةاللہ علیہ اپنے وظیفے میں اضافہ شدہ رقم یہ کہہ کر واپس لوٹادیتے ہیں کہ مجھ سے پہلی والی تنخواہ خرچ نہیں ہوتی تو میں اضافی تنخواہ لے کر کیا کروں گا ۔پس ثا بت ہوا کہ اس غیر فطری مادی ترقی کی ہماری علمیت میں گنجائش موجود نہیں ۔ دنیا کی تاریخ میں اولین اور بھرپور سائنسی ومادی ترقی پہلے مسلم اسپین ( اندلس) اور پھر مغربی یورپ میں ہوئی ۔یورپ کی ترقی کے نتائج و عواقب کی ایک جھلک تو نوآباتی نظام اور دو عالم گیر جنگوں کی صور ت تو دنیا نے دیکھ لی اب اندلس مسلم اسپین میں ہونے والی مادی ترقی کا جائزہ لیں ۔اندلس میں مسلمانوں کی آمد اور فتح اپنے اندر مادی اسباب و ترقی سے بے نیازی کی روشن تاریخ رکھتی ہے ۔ طارق بن زیادنے اپنی تمام تر مادی کم زوری کے باوجود توکل الی اللہ کے اسلحے سے ہسپانیہ کو فتح کرلیا مگر بعد کے مسلم حکمران اور عوام سائنسی و مادی ترقی کا عروج پانے کی دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑنے لگے ۔ مگر یہ سائنسی و مادی ترقی اپنی تمام تر شان و شوکت کے باوجود اندلس کے زوال کو نہ روک سکی اور آٹھ سو سال کی حکومت کے بعد مسلمان اسی ترقی یافتہ اندلس کو چھوڑ کر فرار پر مجبور ہوئے۔ آخر کیوں ؟ کیا انہوں اس وقت تک کی مادی ترقی کے عروج کو چھونہیں لیا تھا ؟ اگر مادی ترقی اسپین کی عظیم الشان سلطنت کو آٹھ سو سالہ اقتدار کے باوجود نہ روک سکے تو معلوم ہوتا ہے کہ قوموں کا عروج وزوال مادی ترقی سے قطع نظر اپنے جدا قوانین رکھتا ہے۔
 ترقی اور قتل عام :
        یورپ میں ہونے والی بے مثال ترقی کے بارے میں یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ اس ترقی کی عمارت نوآبادیاتی لوٹ مار اور محکوم اقوام کے قتل عام پر تعمیر کی گئی۔ اس ترقی کی سیڑھی یعنی نوآبادیاتی لوٹ مار میں دیگر یورپی ممالک برطانیہ ، فرانس اور ہالینڈ سے پیچھے رہ جانے والی اقوام(جرمنی اور اٹلی وغیرہ) میں حسد کا جذبہ ابھرا جو دو عالم گیر جنگوں کا باعث بنا جس میں کم از کم چارکروڑ افراد لقمہ اجل بنے ۔ یہ چارکروڑ افراد ترقی پانے والے تھے یا اس کا شکار ہونے والے ؟؟ اس سوال کے جواب پر بہت سے دیگر جوابات کا انحصار ہے ۔مشہور مغربی مفکر مائیکل مین اپنی تصنیف The Dark side of Democracy میں لکھتا ہے کہ ترقی کا براہ راست تعلق جمہوریت سے اور جمہوریت دنیا میں قتل عام کے بغیر نہیں پنپ سکتی ۔ ایک اور نازک معاملہ یہ ہے کہ مغرب مادی ترقی حاصل کرنے کے فریب میں اپنے مذہب اور علمیت کا سودا کرنے یا اسے ٹھکرانے کے بعد مادی ترقی کی اس شکل کو پاسکا اس کے علاوہ مذہب کو نجی معاملہ قرار دینے کے بعد یہ منزل حاصل کی گئی۔ کیا ہم مادی ترقی کے لئے دین فطرت کی قربانی ، عالمی پیمانے پر لوٹ مار اورمحکوم اقوام کے قتل عام کے لئے تیار ہیں؟؟۔اب سوال یہ بھی ہے کہ اس لوٹ مار کے لئے ہمیں کوئی اجاز ت بھی دے گا یا نہیں ؟ ؟ جن لوگوں کو اس ترقی کے تاریخ کا علم نہیں ان کے لئے عرض ہے کہ صرف امریکہ میں نوکروڑ ریڈ انڈینز کا قتل عام اسی ترقی کو ممکن بنانے کے لئے کیا گیا، آسٹریلیا کے اصلی باشندوں (Aborginies) کو اپنے ہی ملک میں اجنبی بنا دیا گیا ،جنوبی افریقہ کے ہوٹلوں میں کتوں اور سیاہ فام انسانوں کا داخلہ ممنوع قرار پایا ۔ کروڑوں افریقی باشندوں کو غلام بنا کر یورپ اور امریکہ کی زراعت اور صنعت کابے دام کارکن بنا دیا گیا ۔ امریکہ ، افریقہ اور ایشیاءکی دولت اور خام مال کویورپ منتقل کردیا گیا ۔ اس عظیم قتل عام اور استحصال کی بنیادیں اور تاریخی حقائق عام طور پرنگاہوںسے مستور ر ہتے ہیں ۔
ترقی اور تہذیب و ثقافت :
        ترقی کی کہانی کا دردناک پہلو یہ ہے کہ اس کے تصور اور عمل نے دنیا سے مختلف تہذیبوں کی رنگارنگی چھین لی ہے۔ ترقی کا یہ عمل دراصل مختلف اقوام عالم کی خوب صورت ، بھرپور اور زندہ زبانوں ، ان کی تاریخ ، ان کی ثقافت اور سب سے بڑھ کر ان کے مذہب پر
ایک حملہ ہے ۔ سوچنے سمجھنے اور تخلیق کا عمل مغربی سانچوں کا غلام ہوکر رہ گیا ہے۔ترقی کے پرچم تلے مختلف جغرافیے ، تمدن اورتہذیبوںکے افراد کو اپنے پس منظر سے کاٹ کریکساں تہذیب و ذہنیت میں ڈھالنے کا عمل بے حد خطرناک ثابت ہوا ہے۔ اس عمل نے متباد ل نظام ہائے زندگی اور ان کے تخلیقی عمل کے لامحدود امکانات سے ہمیں محروم کردیا ہے ۔المیہ یہ ہے کہ ترقی کے التباس کے نتیجے میں مغرب کائنات کی تقدیر نظر آنے لگتا ہے جس کے آئینے میں ہر تہذیب اپنی صورت گری کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔ یہ تصور ترقی پذیر اقوام کو یہ یاد دلاتا ہے کہ چاہے وہ اخلاقی وتہذیبی اعتبار سے جس قدر شان دار ماضی و حال رکھتی ہوں ،وہ بہرحال ایک کم تر حالت میں موجود ہیں اور ان پیمانوں پر پورا نہیں اترتیں جو مغرب نے ان کے لئے طے کردئیے ہیں ۔ یہ احساس کمتری ان اقوام کو ایک ایسی حالت میں لے جاتا ہے جہاں نہ منزلیں ان کی اپنی ہوتی ہیں اور نہ خواب اپنے ۔ ترقی کے اس تصور کی چکاچوندسے آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہےں جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا کہ
                ع یہ صناعی مگرجھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
   اس طرح اس پری پیکر حسینہ کے خبث باطن کا اندازہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ سرسید کی کوتاہ نظری تھی کہ وہ اپنے رفقاءسمیت باجماعت اس مادی ترقی اور ظاہری دنیا کے فریب کا شکار ہوئے کاش ایسا نہ ہوا ہوتا !! خیر سرسید تو عقلیت کی گمراہی کے اس گڑھے میں جاگرے جہاں سے انہیں قرآن مجید بھی کلام الہی کی جگہ کلام محمد نظر آنے لگا معاذاللہ ۔بہرحال مسلمانان ہند کی بڑی تعداد سرسید کے نظریات سے اتفاق نہ رکھنے کے باوجود ان کے پیش کردہ ”ترقی“ کے نظریہ سے ضرور مسحور ہوئی۔
                ع      ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
                        سب اسی زلف کے اسیر ہوئے
ترقی کے اس نعرے نے بیک جنبش لب دنیا کے عوام کی اکثریت کو غیر ترقی یافتہ ، پسماندہ اور جاہل قرار دےدیا۔ اس ”غیر ترقی یافتہ “دنیا کے عوام اپنی رنگارنگ ثقافت ، زبان ، جغرافیہ، تاریخی پس منظر اور مذاہب کے باوجود ایک ہی لاٹھی سے ہانک دئیے گئے ۔ اپنے طے کردہ اہداف کے بجائے دنیا کی اقوام اب مغربی دنیا کے طے کردہ ہدف ”ترقی“کی طرف گامزن ہوئی ۔
ترقی اور استحصال :
        اب آیئے ترقی کا حالیہ تاریخ میں جائزہ لیں ۔ مادی ترقی کے تصور نے اپنی قدامت کے باوجود ”ترقی یافتہ“ او ر ”ترقی پذیر“ کی اصطلاحات ایک نئے اور استحصالی روپ میں ۹۴۹۱ءمیں نومنتخب امیرکی صدر ایس ٹرومین کی بحیثیت صدر پہلی تقریر سے برآمد ہوئےں ۔ اس تقریر کے بہت دوررس اثرات مرتب ہوئے ۔ اپنی اس تقریر میں صدر ٹرومین نے واضح طور پر اعلان کیا کہ امریک کو ئی نوآبادیاتی ارادے نہیں رکھتا مگر ہوا یہ کہ مشرقی اقوام نوآبادیاتی استحصال سے کسی حد تک آزاد ہوکر بھی غلامی کے نئے مغربی جال کا شکار ربنی اور اب دنیا نئے نوآبادیاتی نظام کا منظر دیکھنے لگی ۔ اس وقت یورپی اقوام دنیا کی تاریخ کی دوبدترین جنگیں لڑنے کے بعد بے حال ہوچکی تھیں جبکہ امریکہ ان جنگوں میں سب سے کم متائثر ہوا تھا ۔ ترقی کو بنیادی نصب العین قرار دیتے ہوئے امریکی صدر نے دنیا کو ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دو اقسام میں تقسیم کرکے دراصل امریکی بالادستی کی راہ ہموار کردی ۔ امریکی برتری اس قدر واضح تھی کہ یورپ کے صنعتی ممالک امریکہ سے ترقی کی دوڑمیں بہت پیچھے تھے۔ بہرحال اب وقت نے ثابت کیا کہ یہ دوڑ دنیا کو تباہی کے کنارے پہنچاچکی ہے۔ امریکی و یورپی اقوام اور اقوامتحدہ اپنے دعوﺅں کے باوجود غریب ممالک کی حالت میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرسکیں بلکہ مغربی اقوام کی لوٹ مار اور تسلط کو نت نئے بہانوں سے وسعت دینے میں کامیاب رہیں ۔خود اقوام متحدہ کی رپورٹیں بھی مشرقی ممالک کی حالت میں کسی بنیادی تبدیلی کی نشان دہی نہ کرسکیں البتہ ترقی کے روزافزوں تباہ کن اثرات کی کہا نی تو ماحولیات کی تباہی اور جانوروں کی انواع کے معدوم ہونے سے صاف ظاہر ہوگئی ہے اور ہر دیدئہ بینا اس تباہی کا مشاہدہ کررہی ہے ۔ حد یہ ہے کہ اس ترقی کے ثمرات سمیٹنے کا وقت آیا تو مغرب میں اس ترقی کی وجہ سے ہونے والی آلودگی ، درجہ حرارت میں روزافزوں اضافہ ، ماحولیات کی تباہی ، صنعتی فضلے اور شہروں کے کچروں کے عظیم الشان انبار ، بڑے شہر بسانے کی ترقیاتی حکمت عملی اپنے برگ و بار لانے لگی ہے اسی وجہ سے کوئی مغربی دانشوربھی ترقی کواپنانے کے لئے تیار نہیں ۔ ترقی کا یہی تصور امریکہ کو کیو ٹو کانفرنس میںمنظورہونے والی صنعتی عمل کو محدود کرنے کی قراردادوں پر عمل کرنے سے روکے ہوئے ہے اور منطق اس کی یہ ہے کہ اس طرح تو امریکی ترقی کا پہیہ سست پڑجائے گا !!!!
                                ع      گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
دنیا بھر کی دانش ترقی کے جنون میں مبتلا ہونے کے نقصانات کی طرف اشارہ کررہی ہے ۔ مگر یہ جنون ہے کہ کسی حد کا پابند نہیں ۔ ملاحظہ ہو ماحولیات پر تحقیق کرنے والے ادارے کی گواہی :
        As developing countries become more industrialized, they also produce more air pollution. The leaders of most developing countries believe they must become industrialized rapidly in order to be economically competitive. Environmental quality is usually a low priority in the race to develop.

ترجمہ :      ”جےسے جےسے ترقی پذیر ممالک صنعتی ممالک میں تبدیل ہورہے ہیں اسی طرح یہ ممالک آلودگی پیدا کرنے میں بھی آگے بڑھ رہے ہیں ۔ بیشتر ترقی پذیر ممالک کے قائدین جلد سے جلد صنعتی ممالک میں شامل ہونا چاہتے ہیں تاکہ معاشی استحکام حاصل کرسکیں ۔ترقی کی اس دوڑ میں ماحولیات جےسے مسائل ثانوی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں ۔“
        قربان جایئے اس ترقی کے کہ انسانوںاور ماحول کی تباہی کے باوجود صنعتی ترقی زیادہ محترم اور عزیز ہے ۔کیوٹو کانفرنس کے متفقہ فیصلوں کو ترقی کے پیش نظر رد کرنے کا فیصلہ افریقہ کے کسی غیر ترقی یافتہ اور جاہل قبیلے کے سردار نے نہیں کیا بلکہ دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کے امام ، جمہوریت اور انسانی حقوق کے چمپئن اور سوفی صد تعلیم یافتہ آبادی کے حامل ملک امریکہ نے کیا ہے۔ذرا ماہرین سے پوچھئے تو دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی پیدا کرنے والے بجلی گھر جنہیں دنیا کے تیس گندے (Thirty Dirties) کہاں ہیں ؟دنیا میں سب سے زیادہ زہریلی گیسوں کا اخراج کس ملک کے کارخانے کررہے ہیں ؟ ان سوالات کے جوابات غوروفکر کے بہت سے دروازے کھول سکتے ہےں ۔
ترقی کے اثرات :
        اس وقت دنیا کی حالت یہ ہے کہ مادی و صنعتی ترقی کے حوالے سے چند (جی ایٹ)ممالک دنیا میں دیگر تمام ممالک سے آگے ہیں ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ترقی کے لحاظ سے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک بھی اگر ترقی یافتہ ممالک کے برابر آگئے تو کارخانوں کا فضلہ پھینکنے کے لئے (زمین کے حجم کے برابر) مزید چھ سیاروں کی ضرورت پڑے گی۔ ابھی ہماری محبوبہ ترقی کے مبارک قدم تمام خطہ ہائے زمین تک برابر پہنچ ہی نہیں سکے اور صنعتی ترقی (Industrialization) کے عمل سے تمام دنیا یکساں فیض یاب بھی نہیں ہوسکی اس کے باوجود ماہرین کا محتاط اندازہ ہے کہ زیرزمین تیل وگیس کی جو مقداربننے کے فطری عمل میں دس لاکھ سال لگے وہ صرف ایک سال میں استعمال ہوجاتی ہے ۔واضح رہے کہ تیل و گیس کے ذخائر ایک بار ختم ہوجانے کے بعد دوبارہ پیدا (Regenerate) ہونے والی چیز نہیں جیسا کہ آبی چکر (Water Cycle) کے نتیجے میں دنیا میں پانی کا تناسب فطری طور پر یکساں رہتا ہے ۔ یہی حال دیگر معدنیات کا بھی ہے۔ اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ انسان کی جہالت یا نادانی بھی لائق تحسین ہے کہ ایک طرف تو زمین کے اندر سے فطری اشیاءمسلسل نکال رہا ہے اور دوسری طرف کبھی حل نہ ہونے والا صنعتی زہریلا فضلہ اس میں داخل کرتا چلاجارہا ہے، یا بدیع العجائب۔ترقی اگر تیل و گیس کے ذخائر کا یہ طوفانی استعمال بند کردیا جائے تو شاید اسی لمحے ترقی کی چکاچوند اور شان دار عمارت دھڑام سے گر جائے گی ۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ صنعتی ترقی کے منحوس اثرات(یعنی دھوئےں اور زہریلی گیسوں ) کی شکل میں جو مواد فضاءمیں ڈالا جارہا ہے وہ سالانہ دس لاکھ افراد کو دمہ اور سانس کی دیگر بیماریوں کی شکل میں موت کے منہ میں دھکیل رہا ہے۔ (ملاحظہ ہو پہلی عالمی وزارتی کانفرنس میں سیکریٹری جنرل کا خطاب ) اس سے زیادہ ہوش ربا تفصیلات ، ترقی کی خوب صورت ترین اور ناگزیر شکل یعنی موٹر کارسے ہونے والی تباہی کی ہیں ۔ ان تفصیلا ت کے مطابق سالانہ بارہ ۲۱ لاکھ انسان سڑک کے حادثات کے نتیجے میں موت کا شکار ہوجاتے ہیں اور کم و بیش دو کروڑ افرادانہی حاد ثات میں زخمی ہوتے ہیں ،ان زخمیوں میں سے پچاس لاکھ افراد شدید زخمی ہوکراسپتالوں میں پہنچائے جاتے ہیں۔
        اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے۷ اپریل ۹۰۰۲ءکوماسکو میں ہونے والی پہلی عالمی وزارتی کانفرنس میں اپنے پیغام میں موٹرگاڑیوں کے حادثات اور متعلقہ اموات کو ۹۰۰۲ء کا عالمی بحران قرار دیا ہے۔ مگر یہ بحران محض اس سال کا نہیں بلکہ سدابہار ہے ، پچھلی ایک دہائی کا جائزہ لیں تو یہ بحران ہر سال لاکھو ں اموات کا ذمہ دار قرار پاتاہے۔
"Each year, more than one million people are killed in traffic accidents -- more than deaths from malaria or diabetes. This conference is long overdue," UN secretary-general Ban Ki-moon said in a message at the First Global Ministerial Conference on Road Safety in Moscow.
 ترجمہ :     ”ہرسال دنیا میں دس لاکھ سے زیادہ انسان ٹریفک کے حادثات میں ہلاک ہوجاتے ہیں ۔ مرنے والوں کی یہ تعداد ہر سال ملیریا اور ذیابیطس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ اس معاملے میں یہ کانفرنس پہلے تاخیر کا شکار ہوچکی ہے۔ “   
ترقی اور گھر :
        ترقی کا سب سے زیادہ فائدہ ہمارے گھروں میں نظر آتا ہے ۔ آج کے گھر ماضی کے گھروں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط،آرام دہ ، خوب صورت اور باسہولت نظر آتے ہیں ۔ مگر ان گھروں کی مضبوطی اور سہولت جس قسم کی صنعتوں کی محتاج ہے وہ خود آلودگی کا بڑا سبب ہیں ۔ انٹر نیٹ کے کسی بھی سرچ انجن پر (In house pollution ( کے الفاظ ٹائپ کرکے دیکھئے اور جانئے کہ ترقی ہمارے گھروں میں آسائش کا سامان ہے یا سانس کی بیماریوں سمیت کئی امراض کاسبب۔
ترقی اور استحصال :
        ترقی کے نعرے نے ترقی پذیر ممالک کی حالت نہیں بدلی بلکہ امیر و غریب ممالک کے درمیان فرق کو مزید گہرا کردیا ہے ۔ آئیے اب دیکھیں کہ ترقی کے مینارئہ نور کی جانب گامزن اقوام ترقی پذیر اقوام کے ساتھ ترقی کے نام پر کیا کھیل کھیلا جارہا ہے ۔ ۰۶۹۱ءمیں مغربی ممالک مشرقی ممالک سے ۰۲ گنا زیادہ امیر تھے جب کہ ۰۸۹۱ء میں مغربی ممالک مشرقی ممالک سے ۶۴ گنا زیادہ دولت مند ہوگئے ۔ ترقی یافتہ ممالک کی دولت کا یہ فرق پرانے شکاریوں کے نئے جال مثلا آزاد تجارت کے عالمی معاہدوں ، عالمی مالیاتی اداروں ، عالم گیریت وراقوام متحدہ کے ذریعے بڑھتا جارہاہے۔ ترقی کا نصب العین دے کر مغربی ممالک نے مشرقی اقوام کے استحصال کی شکل میں نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد بھی جاری رکھا ہوا ہے۔
        ہمارے ہاں ترقی پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے والے دانش ور بڑھتی ہوئی آلودگی ، جرائم ،غریب اقوام کے استحصال پرمبنی تجارت اور ماحولیات کی تباہی پر مسلسل خاموش ہیں اور ان مسائل کی نشان دہی پر محض کندھے اچکاکر رہ جاتے ہیں ۔ اس مشرقی اقوام کو اس اندھی ترقی کی نہیں بلکہ اس احتیاط کی ضرورت ہے جو ہماری تہذیب ، ثقافت، زبان ، روایات، ماحول ، خام مال اور وسائل کوگھاگ مغربی شکاریوں سے محفوظ رکھے ۔ مادی ترقی کو زندگی کی معراج سمجھنے اور سمجھانے والے بقراط آج ترقی کے ثمرات کے طور پر سامنے آنے والی روزافزوں آلودگی ، بڑھتے ہوئے جرائم اور مشرقی ممالک کے استحصال کے بارے میں مسلسل خاموش ہیں ۔ یہ خاموشی بتارہی ہے کہ ترقی کی بیل منڈھے چڑھتی دکھائی نہیں دے رہی۔ افکار تازہ اور تنقیدی نظر سے محروم ذہنوں نے ہمیشہ مرعوب کردینے والے ظاہر پر نگاہ رکھی مگر مغربی تہذیب کے شناسا نے پہلے ہی خبر دار کردیا تھا :
                آتجھ کو بتاتا ہوں رمز آیہ ان الملوک
                 سلطنت اقوام عالم کی ہے اک جادوگری
                ذر ا بیدار ہوتا       ہے     محکوم        اگر
                 پھر سلادیتی اسے حکمراں کی ساحری
ترقی اور ابہام :
        آج مغربی ممالک کے عوام چرچ اورپوپ کی دہری غلامی سے آزاد ہو کر سرمائے کے غلام بن کر رہ گئے ہیں ۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی منظم لوٹ مار ترقی کا یک الم ناک باب ہے۔ ہر ترقی یافتہ ملک میں ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی ترقی یافتہ ہیں اور ان ممالک کے اندر اور بقیہ دنیا میں ان کی باقاعدہ و بے قاعدہ لوٹ مار کی تفصیلات اس موضوع پر چھپنے والی لاتعداد کتابوں میں بھر ی پڑی ہیں ۔ترقی اور خوش حالی کے نعروں کے زیر اثر پرانے طریقے مغرب میں متروک قراردے دیئے گئے اور نئے طریقے اب ناقابل عمل بلکہ تباہ کن ثابت ہوتے جارہے ہیں ۔ہمارے جدید تعلیم کے فرےب نے سرسید سے اب تک کے ترقی پسند بقراطیوں کو اسلامی روایت سے بے گانہ کیا مگر اب جدیدیت اور ترقی کی دانش گاہ نے بھی دادرسی سے معذوری کا اظہار کردیا ہے گویا ع جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
         مشرق و مغرب میں عوام و دانش ور اسی ذہنی و عملی کشمکش کا شکار ہیں ۔ مذہب تو مادی ترقی کے سفر میں سب سے پہلے ہا تھ سے گیا ،اس کے بعد مادی ترقی بھی سراب ثابت ہوئی ۔
                        ع      اہل شوق اب کہو کدھر جائیں 
        ابہام کا عالم یہ ہے کہ آج مشرق و مغرب کا کوئی دانش ور مثالی ترقی یافتہ ملک کی تعریف و مثال بیان کرنے سے قاصر ہے۔ البتہ جرمنی نے اس معاملے میں حسب روایت اپنی سبقت برقرار رکھتے ہوئے ”مستقبل کے شہر “ کا تصور اور عملی نمونہ پیش کیا ہے۔ مستقبل کے اس شہر میں سادہ طرز زندگی کو فروغ دیتے ہوئے شہر میں آلودگی پیدا کرنے والی کسی بھی چیز مثلا موٹر گاڑی ، مشینی کارخانے اور سگریٹ نوشی وغیر ہ سختی سے ممنوع ہیں ۔مستقبل کے شہر کے اس تصور نے ترقی کے مروجہ تصورکے بجائے سوچ کے نئے در وا کئے ہیں ۔چلئے ترقی کی کہانی تو ہوا ہوئی اور ترقی، مشینی صنعتوں ، بڑے پیمانے پر پیداوار (Mass Production) جیسے پیمانے انسانی فطرت کے سامنے ہار گئے ۔                  کسی نے کہا تھا            ع مشرق ہار گیا ہے
   اب کہنا پڑے گا کہ      ع مغرب بھی ہار گیا ہے
         حقیقت تو یہ ہے کہ مادی ترقی ہماری بلکہ ہرکسی بھی فطری معاشرت کا مقصد زندگی نہیں رہی بلکہ اسلامی طرز زندگی کی اپنی اقدار ہیں جو خیروالقرون کی فطری اور مبارک ماحول میں ہی پنپ سکتی ہیں ۔ بہر جن لوگوں نے مادی ترقی کونصب العین بناکر دنیا کو ارضی جنت بنانے کا حسین خواب دکھایا تھا اس کی تعبیر تو بہت بھیا نک نکلی۔ آج کا اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیاآج جب مغرب خود ترقی کے تصور سے بے زار ہے اور اس کے حساس اور سوچنے والے اہل علم کسی متبادل نظام کی تلاش میں ہیں تو دنیا کو روشنی دکھانے والا مسلمان کیا آج اپنا فریضہ سرانجام دینے کے لئے تیار ہے یا اسی ترقی کے فریب نظر کا شکار رہے گا .
        آخری بات یہ ہے کہ ترقی کا نعرہ خود مغرب میں اپنی بنیادوں سے محروم ہو چکا ہے اور مادی ترقی کے سراب نے مادی لحاظ سے بھی اپنی ناکامی کو واضح کردیا ہے ۔ بحیثیت مسلم مادی ترقی سے قطع نظر ہمارا اصل مقصود تو رضائے الہی کا حصول ہے ۔ ہماری زیادہ سے زیادہ ترقی دراصل اس دور سے زیادہ سے زیادہ قریب ہونے کا نام ہے جس کے بارے میں رہتی دنیا کے ہادی اعظم نے ارشاد فرمایا :
                                ”خیرالقرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم “
(ترجمہ ) :   ”بہترین دور میر ا دور ہے ۔ پھر اس کے بعد آنے والا اور پھراس کے بعد آنے والا “۔








  

چوکیدار

<font face="Jameel Noori Nastaleeq" size="4">
 نیاز سواتی
niazhussain.swati@yahoo.com
صرف بالغان کے لیے

 چوکیدار 
        نئے گھر کے ساتھ ہی ہمیں سابقہ مالک مکان نے اپنی پسندیدہ حفاظتی کمپنی کا چوکیدار بھی عطا کیا۔ یہ چوکیدار بہادری، پیشہ ورانہ مہارت ،جدید ہتھیاروں اور جسمانی طاقت سے مالامال ایک بے مثال چوکیدار ہے۔ہم نے ملک کے دیگر حصوں میں موجود اپنی جائیداد کے لیے بھی اسی کمپنی کے چوکیدار مقرر کررکھے ہیں کیوں کہ ہم حفاظتی امورپر کوئی سمجھوتہ کرنے کے قائل نہیں ۔ ایسے قابل چوکیداروں کا تذکرہ سن کر آپ کا بھی دل چاہتاہوگا کہ آج کل کے خراب حالات میں آپ کو بھی ایسے محافظ کی خدمات حاصل ہوں ۔مگر وائے افسوس کہ آپ ایسا نہیں کرسکتے کیوں کہ چوکیداروں کی یہ کمپنی پیشہ مہارت کے ساتھ چند شرائط بھی رکھتی ہے ۔ اگر آپ کو مندرجہ ذیل شرائط منظور ہوں تو بسم اللہ ۔
1)    گھر کے بجٹ کا80 فی صد حصہ چوکیداروں کو تنخواہ و                دیگرخراجات کی مد میں دیا جائے گا۔
                2)   چوکیدار گھر کے ہر معاملے میں دخل دے سکیں گے۔ 
                3)   کبھی کبھی چوکیدار گھر کا مکمل انتظام سنبھال کر اپنی مرضی کا        قانون بھی نافذکرسکیں گے۔   
                4)    ان چوکیداروں کی موجودگی میں گھر پر کوئی حملہ یا واردات              ہوجائے تو انہیں ذمہ نہیں ٹھہرایا جاسکے گا۔  
                  5)   جائداد کے بہترین حصے پر چوکیداروں کا حق ہوگا۔    
                        اگر کوئی چوکیدار بوجہ عمر نوکری سے فارغ ہوجائےتواسے
جائیداد میں اس کی من پسند نوکری پر مقرر کیا جائے گا حتیٰ کہ وہ          ہماری یونی ورسٹی کا وائس چانسلر بھی مقرر ہوسکے گا۔         
          6)   چہٹی آخری شرط یہ ہے کہ پوری افرادی اور اسلحہ کے باوجود چوکیداروں کا پورا جتھہ دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔         
                 اب آپ جیسے حجتی پوچھیں گے کہ ان شرم ناک شرائط کے ساتھ  چوکیداررکھنے کا فائدہ؟ تو بھائی جائیداد کی حفاظت بھی تو ضروری ہے۔ ہم چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ان حالات میں چوکیداروں کی بات ماننی پڑتی ہے۔ تمہیں تو پتا ہے کہ اپنے بنگلے ملک کے ہر شہر میں موجودہیں۔ پچھلے دنوں ہمارے ایبٹ آباد والے بنگلے پر دشمن نے ڈاکہ زنی اور قتل کی واردات کامیاب واردات کی ۔ مگر قسم لے لو کہ ہم نے اپنے سورما محافظوں کو ایک لفظ بھی کہا ہو۔ ہاں ہاں تمہارے سر کی قسم !
         مگر یہ تم کیا کھی کھی کھی لگا رکھی ہے ؟ کیا اس طرح تم ہمارے ان بہادر محافظوں کا مذاق اڑانا چاہتے ہو جنہیں پوری دنیا برا بھلا کہہ رہی ہے۔ نہیں ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ہر گز نہیں ۔
نوٹ : اس کہانی کے تمام کردار اور واقعات فرضی ہیں۔ مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی۔ ٹھیک ہے؟؟؟؟


زمانہ بدل چکا ہے

<font face="Jameel Noori Nastaleeq" size="4">
نیازسواتی

زمانہ بدل چکا ہے !

  زمانہ بدل چکا ہے۔ “ ”آپ کی بات درست ہے مگر ۔۔۔ وقت آگے جاچکاہے۔“ ”آپ بھی کس زمانے کی بات کرتے ہیں ۔ “ ”ٹھیک ہے کہ یہ سب حرام ہے مگر اب تو زمانے کا چلن یہی ہے۔“ یہ جملے دعوت دین کا کام کرنے والوں کے لیے نئے نہیں ہیں۔ برصغیر میں مغلیہ سلطنت کے زوال اور خاص طورپر 1857ءکی جنگ آزادی کی ناکامی نے ہماری مجموعی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ آج ابن الوقتی کی جس روش کا ہم مشاہدہ کررہے ہیں اس کے اثرات ہمارے زوال کی داستان میں موجود ہیں۔ابن الوقتی کی یہ ذہنیت علی گڑھ تحریک سے آج تک مسلمانوں میں استعمار اور مغربی تہذیب سے سمجھوتے کے لیے کوشاں ہے۔
        سرسیدتحریک کی پیدا کردہ اس بیمار انہ ذہنیت کی بہتر ین عکاسی ڈپٹی نذیر احمد نے اپنے ناول ”ابن الوقت“ میں کی ہے۔اس ناول کے ہر قاری نے ابن الوقت کے کردار میں سرسید کی جھلک دیکھ لی۔ سرسید کے کردار کی یہ منظر کشی اس قدر بھرپور تھی کہ خود سرسید کے فرزند نے ڈپٹی نذیر سے اس بات کا گلہ کیا کہ انہوں نے سرسید کے کردار کے اس پہلو کواس طرح کیوں نمایاںکیا کہ ان کی ابن الوقتی ضرب المثل بن گئی ، اگرچہ ڈپٹی صاحب نے وضاحتوں پر وضاحتیںپیش کیں مگرایک واضح حقیقت کے سامنے سب رائیگاں گئیں ۔ آیئے اس ذہنیت کا ناقدانہ جائزہ لیں ۔
  اس سلسلے سب سے پہلی بات یہ کہ کیا زمانہ واقعی ایک ایسی کسوٹی ہے کہ جس کی مدد سے ہر چیز کی خوبی و خامی ناپی جاسکتی ہے یا پیمانہ کچھ اور ہے ؟ اگر زمانہ خود پیمانہ ہے تو فی زمانہ ہونے والی ہر برائی کو اپنالینا چاہیے اور اخلاقیات کے تمام تصورات کو ترک کردینا چاہیے ۔ اس زمانے کو پیمانہ مان لیا جائے تو قتل ، چوری ، جھوٹ ،ظلم اور دہشت گردی غرض کس جرم کی سزا دی جاسکے گی ۔ اگر زمانہ کوئی پیمانہ نہیں تو پھر یہ بات غلط ہے کہ زمانہ بدل گیاہے۔
         دوسری بات یہ ہے کہ کیا ماضی کی ہر چیز زمانے کے ساتھ بدل جانی چاہیے ؟ اگر ایسا ہی ہے تو وقت کے ساتھ خاندان ،محبت ، صداقت ،تعاون اور والدین کا احترام ،مسکراہٹ اور خوب صورتی سمیت تمام انسانی خصوصیات کا خاتمہ ہوجانا چاہیے تھا کیوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ سب انسانی خصوصیات بھی تو پرانی ہوچکی ہیں۔ مگر ابھی پچھلے دنوں ۱۵ مئی کو دنیا بھر میں خاندان کے احیاءکا دن منایا گیا، جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ معاملہ زمانے کے آگے بڑھ جانے کا نہیں بلکہ اصل اہمیت خاندان جیسے معاشرتی ادارے کی افادیت کی ہے جو ہر گزرتے روزشب کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ماضی کی ہر چیز قابل تبدل ہے تو خود ابن الوقتی کی یہ روش بھی بدل جانی چاہیے مگر سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے گزشتہ ایک صدی سے ابن الوقتوں کی ایک ہی گردان جاری ہے کہ ز مانے کی روش ان ا بدی صداقتوں کے خلاف ہے۔ سود اگرچہ حرام ہے مگر زمانے میں چلن تو سود کا ہے لہٰذا سود ،اگر مستقل نہیں تو وقتی طور پر تو درست اور حلال ہونا چاہیے تاکہ مسلمان زمانے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ سکیں۔حقیقت کی پہلی کرن نمودار ہوتے ہی یہ بودی دلیل خود ہی تحلیل ہونے لگتی ہے ۔ اب یہ بات کہنے کا وقت آگیا ہے کہ ابن الوقتی کی اس روش کو بھی خداحافظ کہہ دینا چاہیے ۔
        تیسری بات یہ ہے کہ کیا زمانے کے ساتھ ساتھ انسان کی فطرت بھی بدل گئی ہے ؟ انسانی تاریخ نے اس سوال کا جواب نفی میں دیا ہے ۔ دنیا میں روزاوّل سے جنگوں کا سلسلہ جاری ہے اور دور جدید میں بھی اس رجحان میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ دنیا کی مہذب ترین ترقی کی بلندیوں پر فائزاور جدید تعلیم یافتہ اقوام کے مسکن یورپ کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ صرف جنگ عظیم اول اور دوم میں ہلاک ہونے والے انسانوں کی تعداد چھ کروڑ سے متجاوز ہے.... صرف چھ  کروڑ ! معلوم ہوتا ہے کہ جنگ کے حوالے سے یو ر پ کے انسان کی ذہنیت میں صلیبی جنگوں سے آج تک کوئی فرق نہیں پڑا۔ ہاں فرق پڑا ہے تو صرف یہ کہ اب ٹیکنالوجی کی ترقی کے نتیجے میں جنگوں میں ہلاکتوں کی تعدا د لاکھوں تک پہنچ جاناکوئی مسئلہ ہی نہیں رہا ۔صرف ہیروشیما اور ناگاساکی میں لاکھوں انسان چشم زدن میں فنا کے گھاٹ اتاردیے گئے اور جو باقی بچے ان کی نسلیں آج تک اپاہج پیدا ہورہی ہیں۔
ع      آج بھی زخموں سے گلنار ہے جسم تہذیب
                                آج بھی شہ رگ  اخلاق کا  قاتل   ہے  بشر

صاف ظاہر ہے زمانہ آگے بڑھتا ہے مگر انسانی فطرت کے بنیادی جذبات یعنی محبت ،نفرت ،رحم اور انسانی خواہشات وغیرہ میں کوئی تبدیلی نہیںہوتی ، اس لیے انسانی رہنمائی کے لیے انبیاءعلیہم السلام کے ذریعے دی جانے والے ابدی تصورات کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ ان تصورا ت کے لیے زمانے کی تبدیلی کوئی اہمیت نہیں رکھتی اسی لیے آپ کے دور کو خیر القرون یعنی ہر زمانے سے بہتر زمانہ قراردیا گیا ہے کہ بعد کے زمانے میں ہونے والی ہر تبدیلی کو اس خیرالقرون یعنی بہترین زمانے سے پرکھا جائے گا نہ کہ بعد میں آنے والے کسی زمانے سے خیرالقرون کو پرکھا جائے ۔
        دور جدید میں رواج پانے والے عیسوی تقویم (کیلنڈر) کے مطابق دنیا بھرکی تاریخ کو دو زمانوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ ایک عیسیٰ علیہ سلام کی پیدائش سے قبل کا  زمانہ  جسے  قبل  مسیح (Before Christ) یا B.C کہا جاتا ہے اور دوسرا (After The     Death)  یا  A.D کہلاتا ہے یعنی عیسیٰ علیہ اسلام کے بعد کا زمانہ۔ جب کہ عیسیٰ علیہ سلام کی زندگی کا زمانہ                          (A Temporal) یعنی زمان و مکان سے ماوراءدور سمجھا جاتا ہے ۔ اسی لئے حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی زندگی کے واقعات مہینوں اور سال کے تعین کے ساتھ نہیں ملتے کیونکہ عیسیٰ علیہ اسلام کی زندگی کا دور تاریخ سے ماوراءاور ایک آئیڈیل دور کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اس طرح عیسوی تقویم کے مطابق بھی ایک نبی کا دور زمان و مکان سے ماوراءہوتا ہے ۔ یہی تصور اسلام میں خیرالقرون کے طور پر موجود ہے ، اسی لیے آپ کی تعلیمات زمان و مکان سے ماوراءاور ہر زمانے کے لیے ہیں۔ آپ خاتم النبیین ہیں اور اسلام کے احکامات قیامت تک کے لئے ہیں ۔اس لیے اسلامی احکامات کو یہ کہہ کر ٹھکرانا کہ زمانہ بدل گیا ہے ،عقلی طور پر بھی کوئی مناسب روش معلوم نہیں ہوتی۔
        زمانے کے آگے بڑھ جانے کا ایک عملی مظہر یہ ہونا چاہیے تھا کہ دنیا سے کاسمیٹکس کی مصنوعات اور بال رنگنے والے کیمیکل کی پیداوار کا خاتمہ ہو جاتا کیوں کہ کاسمیٹکس کی مصنوعات اور بال سیاہ کرنے والے کیمیکل کا استعمال آگے بڑھتے ہوئے زمانے کے ساتھ ہم آہنگ رکھنے کے بجائے انسان کو عمر رفتہ کی طرف پلٹانے کی ایک کوشش ہے۔ کیا یہ روش ترقی پسندانہ ہے اور کیا اس روش میں زمانے کے بدل جانے سے کوئی تبدیلی آئی ہے۔
        اس تناظر میں اہم ترین بات یہ ہے کہ "زمانہ بدلنے"سے کیا مراد ہے؟؟ اگر زمانہ بدل جانے سے مراد سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی ہے تو اس ترقی کے اثرات نے دنیا بھر کے ماہرین کو نئے بحرانوںسے دو چار کر دیا ہے ۔ ان نتائج و اثرات نے دنیا کو تباہی کے کنارے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ماحولیات کی تباہی کی موجودہ صوررتحال کا انسانی تاریخ نے کبھی مشاہدہ نہیں کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جس طرح مغربی ممالک میں سائنسی ترقی ہوچکی ہے اگر اسی طرح تمام مشرقی ممالک میں بھی صنعتی ترقی ہوگئی تو صرف ان صنعتوں کا کچرا پھینکنے کے لئے زمین کے برابر چھ مزید سیارے درکار ہوں گے۔ ان حقائق کے اعداد و شمار جاننے کے لئے ۲۰۰۹ء کے دوران کوپن ہیگن میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس کی ہوش رباءدستاویزات کا مطالعہ کافی ہوگا۔ اگر زمانہ بدل جانے سے مراد انسان کا بدل جانا ہے تو جرائم اور خود کشیوں کے دستےاب اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ انسان بی شک بدل گیا ہے......مگریہ تبدیلی منفی ہے۔ موجودہ دور میں تہذیب و تعلیم کا گہوارہ سمجھے جانے والے امریکہ ،یورپ، روس اور چین جیسے ممالک نے جرائم اور خودکشی میں دنیا بھر کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ یہ ترقی معکوس بتا رہی ہے کہ انسانی نفس تو بالکل بھی نہیں بدلا۔ اگر واقعی انسان بدل چکا ہوتا تو کم از کم ترقی یافتہ ممالک میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کا خاتمہ ہو جاتا اور راوی ہر طرف چین ہی چین لکھتا مگر وائے تمنائے خام۔
                              
آخری بات یہ ہے کہ زمانہ بے شک آگے بڑھتا رہتا ہے مگر کائنات کے بارے میں انسانی علم بہر حال ادھورا ہی رہتا ہے۔ اسی لئے علوم اور خاص طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی میں نت نئی چیزیں دریافت ہوتی رہتی ہیں ۔ ترقی کے دوران بعض اوقات انسان پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ ترقی کے اس عمل میں کوئی اہم غلطی ہو چکی ہے جس کہ ازالہ کے لئے ماضی کی طرف پلٹنا ضروری ہے، مثلاََ وقت کے ساتھ ساتھ سائنسدانوں کو معلوم ہوا کہ مسلسل اور تیز رفتار ترقی کے دوران ماحولیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے اور دنیا کا وجود خطرے میں ہے۔ اس کے تلافی کے لئے دنیا بھر میں سبزے کو فروغ دیا گیا، سخت ماحولیاتی قوانین نافذکیے گئے اور فطری طرز زندگی پر زور دیا جانے لگا۔ اس امر کی بہترین مثال جرمنی کے حوالے سے مشہور ہونے والا مستقبل کا شہر"The Future City"  ہے۔ Vauban نامی مستقبل کے اس شہر میں موٹرگاڑیوں ، کارخانوں غرض ضرر رساںدھواں خارج کرنے والی تمام اشیاءکا داخلہ ممنوع ہے۔ حرارت اور نقصان دہ گیسوں کے کم سے کم اخراج اور فطری زندگی کی وجہ سے Vaubanشہر کو مستقبل کا شہر کہا گیا ہے۔ غور سے دیکھیں مستقبل کا یہ شہر ماضی کے یورپی شہروں سے کس قدر متماثل ہے ۔ اسی لیے شہروں کے بارے میں آپ نے ارشاد فرمایا"شہروں کو بڑا مت ہونے دو، اگر شہر بڑے ہونے لگیں تو نئے شہر آباد کرو۔" آج جرمنی میں مستقبل کے اس شہر  Vauban کا وجود میرے آقا صلوٰة سلام کے اس قول مبارک کو ہر زمانے کے لئے یکساں طور پر نافذالعمل ثابت کر رہا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ صنعتی ترقی کے منزل پا لینے کے بعد معلوم ہو کہ انسانی فلاح کی منزل تو کہیں پیچھے رہ گئی ہے۔ سلیم کوثر سچ کہتے ہیں :

        ع              وہ لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں ،دیکھنا انہیں غور سے
                        جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے

<font face="Jameel Noori Nastaleeq" size="4">
نیاز سواتی

قوم اور ہجوم“‘

جاپانی ایٹمی پلانٹ تباہی کے قریب تھا ،سب نے پلانٹ کے سائنس دانوں سے کہا کہ وہ اپنی جان بچاکر چلے جائیں مگر سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ اگر وہ بھی اس پلانٹ کو چھوڑ کر چلے گئے تو تابکاری کوپھیلنے سے روکنا ناممکن ہوجائے گا لہٰذا وہ حتی الوسع اس بات کی کوشش کریں گے کہ ایٹمی تابکاری کی سطح کم سے کم ہوسکے ۔اس سلسلے میں وہ اپنی جان کی پرواہ نہیں کریں گے۔ یہ تصویر ایک قوم کی ہے جس کاکوئی فرد تنہا فرد نہیں اور نہ وہ کوئی افراد کاہجوم ہیں ۔ یہ تصویر جاپان کی تھی ۔اب دوسری تصویر ملاحظہ کیجیے ۔ پڑوسی ملک افغانستان میں انفرااسٹرکچر تباہ حال ہے ۔ ملکی خزانے کی حالت یہ ہے کہ ملک کے سربراہ کے لیے بھی پیٹ بھر کر کھانے کے لیے خوراک موجود نہیں تھی۔ پوری دنیا میں ہیروئن کا خام مال یعنی افیون کی کاشت اس ملک میں جاری تھی۔ اتنے میں ملک کے سربراہ کی جانب سے حکم جاری ہوتا ہے کہ پورے ملک میں افیون کی کاشت بند کردی جائے کیوں کہ اس طرح کی نشہ آور چیز یں اسلام میں حرام ہیں۔ لہذاافغان طالبان کے زیر انتظام علاقوں میں پوست کی کاشت کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔ آج دنیا کی مہذب ، جمہوری اور تعلیم یافتہ قوم امریکا یہاں قابض ہے مگر اعداد و شمار بتارہے ہیں کہ اس سال ۵۶ ہزار ایکڑ کے رقبے پر افیون کی کاشت کی گئی ہے ۔
آئینہ ایام کی یہ دو تصاویر کیا بتا رہی ہیں۔ ان تصاویر کا کہنا ہے کہ جرمنی اور جاپان قومیں ہیں اور پاکستانی محض ہجوم! مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم روز اول سے ہی افراد کا ہجوم ہیں یا کبھی ہم قوم بھی تھے۔ ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ہم ایک قوم تھے، ہم نے ایک ایسے ملک کو سنبھالا دیا اور مشکلات سے نکالا جس کے بارے میں دشمنوں نے پورے یقین سے کہہ دیا تھا کہ یہ ملک زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کا مہمان ہے اس کے بعد یہ ملک خود ہی بھارت میں ضم ہونے کی درخواست لیے کھڑا ہوگا۔اگر ہم ہجوم ہوتے تو مشکلات کی اس گھڑی میں تتر بتر ہو جاتے مگر اس کے برعکس ہوا ۔ مملکت خدادا پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک مستحکم ملک بن کر ابھرا۔جاپان اور جرمنی کی یہ دونوں تصاویردنیا کے دو ایسے ممالک کی ہیں جہاں قومیں بستی ہیں نہ کہ ہجوم ۔ پہلی قوم یعنی جاپانی اپنی مشترکہ زبان ،نسل ،تمدن اور وطن سے وجود میں آئی ہے اور دوسری قوم ایک عقیدے، ثقافت اور مشترکہ اقدارکے نتیجے میں بنی ہے ۔ دنیا میں قوموں کی تشکیل کے دو ہی طریقے ہیں ۔ایک مشترکہ زبان ،علاقہ اور نسل کے ذریعے قوم بننا اور دوسرا کسی عقیدے یا نظریے کی بناءپر قوم کی تشکیل ۔
پاکستان اور اسرائیل کی تشکیل بہرحال ان دونوں قوموں کے عقائد کی بناءپر ہی ہوئی ہے۔ قیام پاکستان تو ایک نظریے کی بناءپر ہوا تھا مگر آہستہ آہستہ نظریہ

¿ پاکستان پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ نظریہ
¿ پاکستان وہ واحد بنیا د ہے جو گلگت سے لے کر کراچی تک مختلف زبانوں اور ثقافتوں کی حامل قومیتوں کو ایک قوم بناسکتی ہے۔قیام پاکستان کے وقت بھی ایک کلمے نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک کر دیا تھا۔ اس کے باوجود کے ہندوستان زبان ، ثقافت اور نسل کے اعتبار سے ایک رنگا رنگ ملک ہے ۔ قیام پاکستان کی جدو جہد میں بر صغیر کے ان علاقوں کے مسلمان بھی شریک ہوئے جنہیں معلوم تھا کہ ان کے علاقے کبھی پاکستان کا حصہ نہیں بن سکیں گے ، مگر اسلامی نظام کے قیام کے نعرے نے سب کو ایک کر دیا ۔
آج پھر مشکل گھڑی ہے ایک وقت تھا کہ ہم ایک قوم کے طور پر برصغیر میں موجود تھے لیکن ہمارا کوئی ملک نہ تھا آج ہمارا ایک ملک موجود ہے مگر قوم موجود نہیں۔ اک ہجوم ہے جسے جو چاہے جہاں چاہے ہانک کر لے جائے۔ جس کا دل چاہے ایبٹ آباد پر حملہ آور ہو۔ جس کا جی چاہے پی این ایس مہران کو تہہ وبالا کر دے۔ کبھی کوئی چاہے تو دبئی میں بیٹھ کر ہزاروں ویزے جاری کروالے اور کبھی چاہے تو ڈاکٹرعافیہ کو۸۶سال کی سزا دے دے اور کبھی ان دل چاہے تو دن دہاڑے ہمارے ۲ شہریوں کو قتل کرنے والے ریمنڈ ڈیوس کو مکھن میں سے بال کی طرح نکال کر لے جائے۔اور کبھی کسی کا دل مانے تو ہمارے قبائلی علاقوں پر میزائلوں کی بارش کر دے۔آج اگر ہم نے اپنے آپ کو ایک قوم کے قالب میں نہ ڈھالا تو ڈرون حملوں سے لے کر پی این ایس مہران تک یہ سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا۔
اگر ہم نے قیام پاکستان کے فوراَ بعد اسی نظام کی طرف پیش رفت کی ہوتی کہ جس کا نعرہ لگایا گیا تھا تو شاید ہم آج ایک قوم ہوتے اور سقوط ڈھاکہ جیسا سانحہ بھی نہ پیش آتا ۔ مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ گلگت سے کراچی تک بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والا ایک ہجوم ہے نہ کہ قوم۔ آج اس امر کی ضرورت کہ گلگت سے کراچی تک تمام قومیتوں کو خلافت راشدہ کے احیاءکے پیغام پر جمع کیا جائے تاکہ امن، انصاف اور یکساں عقیدے کی بنیاد پر ہم دوبارہ ایک قوم بن سکیں۔ پاکستان کو بچانے کا واحد راستہ یہی ہے۔



نیازسواتی

کار کلچر“      کیا کھویا کیا پایا ؟

        آئیے آج کی گفتگو ایک ایسی چیز کے بارے میں کریں جو ہماری روزمرہ زندگی کا لازمی جزو بن چکی ہے ۔یہ ایک ایسی چیزہے جس کی افادیت کا ہر کوئی قائل ہے ۔ اب آپ سے کیا پردہ ؟ یہ ہماری محبوب چیز یعنی ”کار “ ہے جس کے بغیر ہر شخص بے کار ہے بلکہ بے کا ر محض ہے ۔آیئے اس چمکتی دمکتی محبوبہ کی اداﺅں کا جائزہ لیں ۔ہماری محبوبہ کار کی دلفریب ادائیں کسی قدر ہوشربا ہیں۔ مصدقہ اعداد وشمار کے مطابق صرف ایک کار کی تیاری کے دوران ایک لاکھ لیٹر میٹھا اور صاف پانی خرچ ہوتا ہے۔ دوسری طرف ورلڈ بینک کے صدر کا کہنا ہے کہ آئندہ جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوں گی۔ گاڑی کے پرزوں کی تیاری کے دوران ہونے والے ماحولیاتی نقصانات توعام طور پرنگاہوں سے مستور رہتے ہیں ،گاڑی کے پرزوں کی تیاری کے لئے ربر پلاسٹک اور دھاتی مواد کیے پگھلاﺅ کے دوران حرارت اور زہریلی گیسوں کا زبردست اخراج ایک طرف مگر موٹر گاڑی کے چلنے کے بعد ہونے والے نقصانات اس قدر واضح ہیں کہ ان سے صرف نظر ناممکن ہوگیا ہے۔ دل تھام کے رکھیے ! اس معاملے کی تفصیلات بھی کم ہوش ربا نہیں ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال دنیا بھرمیں ۱۲ لاکھ افرادسڑک پر حادثات کی صورت میں ہلاک ہوجاتے ہیںاور تقریبا دو کروڑ افراد اسی طرح زخمی حالت میںاسپتال پہنچائے جاتے ہیں۔ ان زخمیوں میں سے پچاس لاکھ افراد شدید زخمی ہوکر اسپتالوں میں پہنچائے جاتے ہیں ۔ ان سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ موٹر گاڑیوں سے پیدا ہونے والے دھوئیں سے دمے اور سانس کے دیگر امراض میں مبتلا ہو کر ۱۳ لاکھ زائد انسان موت کا شکار ہورہے ہیں ۔ واضح رہے کہ یہ اعداد و شمار ان حادثات کے ہیں جن کی باقاعدہ رپورٹنگ ممکن ہوسکی ہے ۔اس طرح کے حادثات میں مرنے والوں کی تعداد ملیریا اور ذیابیطس میں مرنے والے افراد سے بھی زیا دہ ہے ۔ سڑکوں پرہونے والے حادثات ہماری زندگی کا معمول مگر ایک نظرانداز کردہ شعبہ ہیں ۔انسانی زندگی کی اس بڑے پیمانے پر ارزانی اور زخموں کی فراوانی اور اس پر ہماری غفلت بھی دیدنی ہے ۔ گاڑیوں کے حادثات میں لگنے والے زخم ، معذوریاں ،ہلاکتیں اوروہ بھی اس بڑے پیمانے پر کہ جنگوں کی معلوم تاریخ کے ریکارڈ کے مطابق آج تک ہونے تمام جنگوں میںہونے والی ہلاکتیں ملاکر بھی اس تعداد سے کم ہیں جو صرف سڑک پر ہونے والے حادثات میں ہوچکی ہیں ۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے۷ اپریل ۲۰۰۹ءکوماسکو میں ہونے والی پہلی عالمی وزارتی کانفرنس میں اپنے پیغام میں سڑک کے حادثات اور متعلقہ اموات کو  ۲۰۰۹ءکا عالمی بحران قرار دیا ہے۔ مگر یہ بحران محض اس سال کا نہیں بلکہ سدابہار ہے ، پچھلی ایک دہائی کا جائزہ لیں تو یہ بحران ہر سال لاکھو ں اموات کا ذمہ دار قرار پاتاہے۔
"Each year, more than one million people are killed in traffic accidents -- more than deaths from malaria or diabetes. This conference is long overdue," UN secretary-general Ban Ki-moon said in a message at the First Global Ministerial Conference on Road Safety in Moscow.
ترجمہ :      ”ہر سال دس لاکھ سے زیادہ انسان سڑک کے حادثات میں ہلاک ہوجاتے ہیں ۔ مرنے والوں کی یہ تعداد ملیریا اور ذیابیطس سے مرنے والے افراد کی تعداد سے بھی زائد ہے ۔ اس موضوع پر ہونے والی یہ کانفرنس پہلے ہی تاخیر کا شکار ہے ۔
         ایسا نہیں ہے کہ دنیا میں کسی کو اس مسئلے کا ادراک نہیں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم آگہی کے باجود اندھی موت کی طرف سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں اور اپنے تئیں اپنے آپ کو اس سے محفوظ سمجھتے ہیں ، آج کون سی گلی اورکو ن سا گھر ہے جہاںسڑک کے حادثے میں متائثر ہونے والاکوئی نہ کوئی فرد موجودنہ ہو ۔اس عالمگیر مسئلے کی اس عالم گیر آگہی کے باوجود اس سے چشم پوشی حیرت انگیز ہے مگرآج مشرق ومغرب میں رہنے والے ہر فرد کے سامنے ”ترقی“ کا وہ عجیب و غریب تصور ایک نصب العین کی صورت موجود ہے جس کی چکاچوند کے سامنے عامی و عالم اور جاہل یکساں رویے کا اظہار کررہے ہیں ۔ترقی کے دیگردائرے اپنے تصورات پیش کرتے ہیں اور نظر انداز ہوتے چلے جاتے ہیں کیونکہ ترقی کے اس مخصوص مادی تصورجو صنعتی ترقی سے مشروط ہے ،نے ہر تصور کی افادیت ہمارے ذہنوں میں کھودی ہے۔
ترقی کی خوب صورت اور واضح ترین شکل یعنی کار کے زیادہ تر شکار ترقی پذیر اور کم آمدنی کے حامل ممالک ہیں ۔ بان کی مون کی زبانی سنےئے۔
In addition to deaths, some 50 million people are severely injured, costing governments one to three per cent of their gross national products.
 اب اگرمندرجہ بالا اقتباس پڑھ کر اگر آپ کو اردو زبان کی مشہور ترین کہاوتیں مثلا ”مرے کو مارے شاہ مدار“ اور” مفلسی میں آٹا گیلا “وغیر ہ یاد آجائیں تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں کیونکہ اگر غریب ممالک کی جی ڈی پی کا تین فی صد اگرکار کے سڑک کے حادثات میں زخمی ہونے والوں پر لگ جائے تو تعلیم وغیرہ پر جی ڈی پی کا پانچ فی صد خرچ تو ممکن ہی نہیں رہتا ،حالانکہ اسی اقوام متحدہ کا تجویزکردہ تعلیمی بجٹ یہی ہے ۔ ان نقصانات کے عقب میں ذرا ان جسمانی و روحانی تکالیف کا اندازہ لگائیے جن سے مرنے یا زخمی ہونے والوں کے افراد خانہ گزرتے ہیں تو اس کار کلچر کے حقیقی نقصانات کی ایک جھلک نظر آجائے گی جو ترقی کے مخصوص تصور نے اپنے جلو میں چھپارکھی ہے مگر دیدئہ بینا رکھنے والوں سے پوشیدہ نہیں ۔اس ترقی کی لاحاصل منزل کو پانے کے لئے اور اس کی طرف سفر جاری رکھنے کے لئے کاریا گاڑی لازم ہے مگر اس سفر اس سفر کی اس قدر جانی و مالی قیمت اداکرنے اور مسلسل اداکرتے رہنے پر ہم تیار ہیں ؟؟؟
        یہا ں ایک غلط فہمی یہ بھی ہے کہ سڑکوں کی حالت ، حفاظتی انتظامات اور حفاظتی عملے کی تربیت کی صورت حال بہتر بناکر ان حادثات سے چھٹکارہ ممکن ہے۔ مگر قابل غورامر یہ ہے کہ اس طرح ان حادثات کی تعداد صرف کم کی جاسکتی ہے یعنی ہر سا ل ایک ملین سے ہونے والی اموات کی تعداد کچھ کم ہوسکتی ہے مگر اس کا امکان بھی کم ہی ہے کیونکہ ہر طرح کی ٹوٹ پھوٹ سے ماورائے سگنل فری کوریڈورز پر ہونے والے حادثات سابقہ سڑکوںپر ہونے والے حادثات سے زیادہ مہلک ہیں ۔ اس مسئلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کار کلچر کے نتیجے میں پیدا ہونے والی فضائی آلودگی تو کم ہونے کے بجائے بڑھتی چلی جاتی ہے کیونکہ بہتر سڑکوں اور سگنل فری کوریڈورز نے گاڑیوں کی تعداد میں کمی نہیں بلکہ اضافہ کیا ہے اور شاید اس کا مقصد بھی یہی تھا ۔ اس مسئلے کے حل کے لئے ہونے والی کیوٹو کانفرنس کی ناکامی نے بھی اسی حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کا سدباب اسی ترقی کے تصور کی وجہ سے ممکن نہیں ۔ ترقی، بڑھتی ہوئی آلودگی ، عالمی درجہ حرارت کے بڑھنے اور ماحولیات کی تباہی پر آئندہ کسی ملاقات میں گفتگو ہوگی ۔ انشاءاللہ